Orhan

Add To collaction

پہلی نظر

پہلی نظر از قلم امرین ریاض قسط نمبر 11

"جونیجو کو بلاؤ گُھمن۔۔۔۔۔۔۔"بلوچ وہاں سے سیدھا بلوچ ہاؤس آیا تھا اب وہ جونیجو سے بات کرنا چاہتا تھا اُسے یقین تھا جونیجو اُس آدمی کو ضرور ڈھونڈ لے گا۔ "جی سائیں۔۔۔۔۔"جونیجو گُھمن کے ساتھ ہی اندر داخل ہوا جہاں بلوچ کُچھ اضطرابی کیفیت میں ڈوبا ٹہل رہا تھا۔ "گُھمن تُم جاؤ۔۔۔۔۔۔"بلوچ نے گُھمن کو جانے کا اشارہ کیا اسے اب سب ہی مشکوک نظر آ رہے تھے گُھمن نے جونیجو کی طرف دیکھا جو اُسکی طرف ہی دیکھ رہا تھا وہ خاموشی سے باہر چل دیا۔ "تُم نے اُس رات کہا تھا نہ کہ کوئی بندہ ہے جو اس حویلی میں موجود رہ کر ساری خبریں مریام شاہ تک پہنچا رہا ہے اور تُمہارا شک نتاشہ پر تھا جو بلکل ٹھیک ثابت ہوا تھا مگر اُس کے علاوہ بھی کوئی اور بندہ لال حویلی یا اس بلوچ ھاؤس میں موجود ہے جو ہماری ہر بات سے باخبر ہو کر اُسی وقت مریام شاہ کو آگاہ کر دیتا ہے اور پھر ہمارے پہنچنے سے پہلے ہماری ہر کامیابی کو ہار میں بدل دیتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔"بلوچ کی بات پر جونیجو کے چہرے پر مکمل سکوت تھا بس وہ خاموشی سے اُسے دیکھ اور سُن رہا تھا۔ "صرف تُم ہی ہو جو اُس آدمی کو تلاش کر سکتے ہو،کسی بھی طریقے سے جونیجو اُسکا ملنا بہت ضروری ہے آخر کون آستین کا سانپ ہے جو مُجھ سے غداری کر رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔"اب کی بار اُس کے لہجے میں ایک چنگاری تھی جس پر جونیجو کے تاثرات بدلے۔ "آپ فکر نہ کریں میں ڈھونڈ لُونگا لیکن ۔۔۔۔۔۔"وہ جان بوجھ کر بات ادھوری چھوڑ گیا۔ "لیکن کیا۔۔۔۔۔۔"بلوچ نے سوالیہ نگاہوں سے اسکے سپاٹ چہرے کی طرف دیکھا۔ "لیکن اُس کے لئے آپکو کوئی ایسا جال بُھننا ہوگا جس میں مریام شاہ دلچسپی رکھتا ہو۔۔۔۔۔۔" "تُمہارے کہنے کا مطلب مُجھے کسی کے سامنے کوئی ایسی بات یا منصوبہ بنانا چاہئیے جس میں مریام شاہ دلچسپی رکھتا ہو تو وہ فورًا ری ایکٹ کرے گا جس سے ہمیں اُس بندے کی شناخت ہو سکے گی۔۔۔۔"بلوچ کے دماغ میں اُسکی بات آ سمائی تو پر جوش ہوا۔ "ویلڈن جونیجو مجھے پتہ تھا تم ہی ہو جو مریام شاہ کی عقل کے مُطابق لڑ سکتا ہے،کُچھ سوچتے ہیں بابا اُس کے بارے بھی۔۔۔۔۔۔۔۔"اب کہ وہ ریلکیس ہوتا دیوان پر ٹک گیا ساتھ اسے بھی بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ "ویسے آپ کے نزدیک کونسا ایسا منصوبہ ہے جس میں مریام شاہ کو دلچسپی ہو سکتی۔۔۔۔۔۔"جونیجو اپنی نشست سنبھالتے ہوئے بولا۔ "ہے ایک جونیجو،میں اپنے دُشمن سے بہت اچھی طرح واقف ہوں،اُسے جو چیز مُجھ سے چاہئیے جانتا ہوں میں۔۔۔۔۔۔"وہ کُچھ سوچ کر ُمسکرایا۔ "اگر تُمہیں اس چیز سے واقف ہوتے کہ تُمہارا دُشمن کس چیز میں دلچسپی رکھتا ہے تو تم کبھی بھی اس مقام تک نہ آتے بلوچ اور نہ مات پہ مات کھا رہے ہوتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔" جونیجو کی نظروں میں ایک عجیب سی کاٹ اور تمسخر تھا جس سے بے خبر بلوچ اپنی ہانکے جا رہا تھا۔

"_________________________________"

"مُجھے سگریٹ پینے والے مرد زہر لگتے ہیں۔۔۔۔۔۔"وہ سگریٹ کا لمبا سا کش لیتا ہال میں داخل ہوا تھا کہ اپنی چہیتی بیوی کے لبوں سے یہ فرمان سُنتے ہی اس نے ہاتھ میں جلتی سگریٹ زمین پر پھینک کر جوتوں سے مسل دی اور دو تین لمبے لمبے سانس ہوا میں خارج کرتا انکی طرف آیا جہاں اُسامہ معنی خیزی سے کھانس رہا تھا۔ "بلکل ٹھیک،مُجھے خُود وہ مرد انتہائی زہر لگتے ہیں جو سگریٹ لبوں سے لگا کر لمبے لمبے کش لے کر خُود کو ہیرو تصور کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔"اُسامہ جسکا رُخ ہال کے دروازے کی جانب تھا مریام شاہ کو سگریٹ پھینکتا دیکھ کر شرارت سے بولا جس پر پرخہ نے زور زور سے سر ہلا کر اُسکی تائید کی۔ "یہ لیں مریام آ گیا،بھابھی مریام سے پوچھ لیں اسے کیسے لگتے ہیں تمباکو نوشی کرنے والے مرد۔۔۔۔۔۔"اُسامہ نے جان بوجھ کر اُسکا رُخ مریام کی طرف کیا پرخہ جو مریام کو دیکھ کر خُوشگوار حیرت سے دو چار ہوئی تھی اُسکی بات مانتے ہوئے اپنے ساتھ بیٹھتے مریام شاہ سے بولی۔ "شاہ،آپ بتائیں آپکو سگریٹ پینے والے مرد کیسے لگتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔" "چھوڑو تُم کن باتوں میں پڑ گئی ہو۔۔۔۔۔۔"اُس نے ٹالنا چاہا۔ "نہیں آپ بتائیں مُجھے پتہ ہے آپکو بھی یہ سب نہیں پسند۔۔۔۔۔۔۔۔"اُس کے کہنے پر جہاں اُسامہ نے اپنی مُسکراہٹ ہونٹوں میں دبائی وہی مریام شاہ نے اُسے خشمگیں نگاہوں سے دیکھا تھا۔ "ظاہر ہے مُجھے کیوں یہ سب اچھا لگے گا،تُم صندل بُوا سے بولو ڈنر لگوائیں۔۔۔۔۔۔۔۔"پرخہ اُسکے کہنے پر سر ہلا کر اُٹھ گئی۔ "میری بیوی سے دُور رہو،زیادہ سالہ بننے کی ضرورت نہیں اور اس طرح کی فضول باتیں اُسکے دماغ میں مت ڈالو۔۔۔۔۔۔۔"مریام شاہ نے گھورتے ہوئے تنبیہ کی جس پر اُسامہ ڈھٹائی سے کندھے اُچکا گیا۔ "اوکے یہ سب بھابھی کے سامنے کہو تو میں سالہ بننے کی کوشش نہیں کرونگا۔۔۔۔۔۔۔"اُس کے ہاتھ میں بھی بہت سالوں بعد مریام شاہ کی کمزوری لگی تھی۔ "تُمہاری تو۔۔۔۔۔۔"مریام شاہ اُسکی طرف بڑھا جس پر وہ صوفے پر سے چھلانگ لگاتا کچن کی طرف دوڑا مریام شاہ اُسکی طرف لپکا مگر کچن سے نکلتی پرخہ کو دیکھ کر خُود کو روک گیا۔ "ڈنر لگ چُکا ہے،اُسامہ بھائی آئیں،شاہ آپ بھی۔۔۔۔۔۔۔" "اُسامہ کی میٹنگ ہے ایک گھنٹے بعد،اُسے وہاں جانا ہے نہ اُسامہ۔۔۔۔۔"مریام شاہ دانت پیس کر بولا جس پر اُسامہ نے اپنی مُسکراہٹ کا گلا گھونٹا اور اُسکے مسلسل آنکھیں دکھانے پر بولا۔ "جی بھابھی،مُجھے ایک آفیشل ڈنر پر جانا ہے،کل مُلاقات ہوتی پھر آپکو ابھی تو خُون خرابہ کرنے والے ظالم آدمیوں کے بارے بھی بتانا۔۔۔۔۔۔۔۔"اُسکے لبوں پر شرارتی مُسکان تھرک رہی تھی جس پر مریام شاہ صبر کے گُھونٹ بھر کر رہ گیا اگر پرخہ نہ ہوتی تو وہ اُسے مزہ چکھا دیتا مگر مجبوری یہ تھی کہ وہ پرخہ کے سامنے ایسی کوئی حرکت کرنا نہیں چاہتا تھا جس سے اُسکا امیج اُس کے سامنے خراب ہو اور اسی بات کا اُسامہ کو علم ہو گیا تھا کہ مریام شاہ جتنا بھی سخت اور ظالم تھا مگر پرخہ کے سامنے اور اُس کے لئے وہ کُچھ بھی برداشت کر سکتا تھا اس لئے تو اُسامہ کو اُسکی بے بس حالت پر مزہ آ رہا تھا۔ "جی ٹھیک ہے بھائی۔۔۔۔۔۔"پرخہ کے کہنے پر وہ چل دیا مگر مریام شاہ کی آواز پر پلٹا۔ "مُجھے اطلاح مل رہی ہے کہ تُمہاری گاڑی میں آجکل کوئی ڈاؤٹ ہو رہا ہے،کسی بھی وقت تُمہیں مُشکل میں ڈال سکتی ہے اس لیے زرا دھیان سے۔۔۔۔۔۔۔۔"مریام شاہ نے آنکھوں ہی آنکھوں میں کوئی اشارہ کرتے ہوئے جیسے اُسے کسی چیز کے متعلق ہویشیار کیا تھا جسکا مطلب سمجھ کر اُسامہ نے سر اثبات میں ہلایا اور چلا گیا مریام شاہ اسکی طرف مُڑا جو کہہ رہی تھی۔ "تو بھائی نیو گاڑی لے لیں۔۔۔۔۔۔"وہ اپنے حساب سے بات کو لیتی بولی۔ "ہاں کرتے ہیں کُچھ،تُمہیں بڑی پروا ہے اپنے بھائی کی۔۔۔۔۔۔۔"مریام شاہ نے شرٹ کے بازو فولڈ کرتے ہوئے کمرے کی طرف بڑھا۔ "ہاں تو بھائی ہیں میرے،آپکو پتہ اُنہوں نے مُجھ سے پرامس کیا ہے کہ وہ ُمجھے لاہور دکھانے لے کر چلینگے۔۔۔۔۔۔۔"وہ بھی اس سے بات کرتی اسکے پیچھے ہی آ رہی تھی کہ مریام شاہ یکدم اُسکی طرف گُھوم گیا۔ "کیا کہا تُم نے،لاہور جانا وہ بھی اُسامہ کے ساتھ،ایسا بولا اُس سالے نے۔۔۔۔۔۔۔"مریام شاہ نے دانت پیسے۔ "آپ ایسا کیوں بول رہے اُنکو۔۔۔۔۔۔۔"پرخہ کو اچھا نہ لگا۔ "اس سے بھی بُرا بول کیا کر بھی سکتا ہوں اگر تُم میرے علاوہ کسی اور کے ساتھ کہیں بھی جانے کی بات کرو گی،میں تُمہارے معاملے میں خُود پر اعتبار نہیں کر سکتا تم اُسامہ کی بات کر رہی ہو۔۔۔۔۔۔۔" "شاہ۔۔۔۔۔۔۔۔"اُس نے کُچھ کہنا چاہا مگر وہ روک گیا۔ "بس چُپ،میں مُنہ ہاتھ دھونے جا رہا ہوں پھر ڈنر کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔"وہ کہتا ہوا کمرے میں آیا تو وہ مُنہ لٹکا کر پلٹ گئ۔ "اُسامہ تُمہاری تو خیر نہیں اب میرے ہاتھوں،اس کے ایک بھائی نے جان عذاب میں ڈال دی ہے ابھی دُوسرے نے آ کر پتہ نہیں کونسے جوہر دکھانے،سالے بن رہے مریام شاہ کے۔۔۔۔۔۔۔"وہ بڑبڑآتا واش رُوم میں گھسا۔

"__________________________________"

"مُجھے موت چاہئیے مریام شاہ کی،اُس کے لیے میں کوئی بھی قیمت دینے کو تیار ہوں آغا۔۔۔۔۔۔۔"حاکم نے کال ملا کر دوسری طرف ہیلو بولتے ہی اپنا مطالبہ پیش کیا جس پر آغا مُسکرایا۔ "ٹھیک ہے حاکم،میرا تو کام ہی یہی ہے پیسوں کی خاطر لوگوں کی جان لینا پر مریام شاہ کو مارنا تھوڑا مُشکل کام ہے۔۔۔۔۔۔" "کیا مُشکل کام ہے،وہ بھی تُمہارے لیے ٹارگٹ کلر آغا کے لیے۔۔۔۔۔۔"وہ اچھنبے سے بولا۔ "بات یہ نہیں حاکم،تُم بھی جانتے ہو مریام شاہ تک پہچنا ہی مُشکل ہے کجا کہ اُسکو مارنا،ہمیں آج تک اُس کے آنے جانے کی کبھی خبر نہیں ہوئی،دو دفعہ پہلے بھی تُم نے اُسے مارنے کا پروگرام بنایا تھا مگر دونوں دفعہ ہی تُمہارے اپنے بندوں کی لاشیں تُمہیں ریسیو ہوئی تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔"آغا نے اُسے اُسکی ناکامی یاد کروائی جس کو سوچ کر حاکم بھڑک اُٹھا۔ "تُمہیں وہ سب بتانے کی ضرورت نہیں تُم بتاؤ کام کرو گئے یا نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔" "اوکے ٹھیک ہے کر دُونگا،بدلے میں مُجھے ایک کڑور چاہئیے،آخر تُمہارا سب سے بُرا دُشمن راستے سے ہٹانا کوئی چھوٹا کام ہے وہ بھی مریام شاہ۔۔۔۔۔۔۔" "اوکے ٹھیک ہے مل جائیں گئے،ایڈوانس تُمہیں آج ہی مل جائے گا باقی کام ہونے کے بعد۔۔۔۔۔۔۔۔"حاکم نے کہہ کر فُون بند کر دیا۔ "دو دفعہ تُمہارا بچنا تُمہاری اچھی قسمت مریام شاہ،اب تُمہارا مرنا تُمہاری بد قسمتی جو کسی بھی وقت آ سکتی ہے۔۔۔۔۔۔۔"حاکم کی آنکھوں سے مریام شاہ کے لیے نفرت کی چنگاریاں نکل رہی تھیں۔

"_________________________________"

مریام شاہ اُسکا روٹھا انداز نوٹ کر رہا تھا جو مُنہ پھیلائے ڈنر کر رہی تھی۔ "تو یہ بھی دن آنے تھے مریام شاہ پر کہ اُسے بیوی کے ساتھ ساتھ اُسکے بھائیوں سے بھی بنا کر رکھنی پڑے گی۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ گہرا سانس بھر کر رہ گیا۔ "تُمہارا یہ لٹکا ہوا مُنہ سیدھا کرنے کے لیے مُجھے کیا کرنا ہوگا مسز شاہ۔۔۔۔۔۔۔۔" "آپ نے خُود ہی تو مُجھے چُپ رہنے کا کہا تھا۔۔۔۔۔۔"وہ خُفگی سے بولی۔ "میں نے صرف اُسامہ کے معاملے میں چُپ رہنے کا کہا تھا۔۔۔۔۔۔"مریام نے اسکی پلیٹ اپنی طرف کھسکائی وہ حیرانی سے دیکھنے لگی جو سپون میں چاول لئے اسکے مُنہ کی طرف ہاتھ بڑھا گیا پرخہ نے مُنہ کھولتے ہوئے نوالہ نگل لیا۔ "پہلی اور آخری دفعہ ہم میں کسی تیسرے کی وجہ سے بحث ہوئی ہے،آئندہ اگر ایسا ہوا تو میں اُس تیسرے کی جان لے لونگا پرخہ،زہن میں رکھنا یہ بات۔۔۔۔۔۔"اُسکے تاثرات سے زیادہ اُسکے لہجے میں سختی تھی۔ "میں نے کُچھ کہا آپ سے۔۔۔۔۔۔۔"وہ اسکے انداز سے سہم گئی۔ "تُم کُچھ بھی کہہ لو پر میرے علاوہ تُم کسی کے ساتھ کہیں نہیں جاؤ گی میں ایسا کوئی رسک نہیں لے سکتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اُسے اپنے ہاتھ سے ہی کھلا رہا تھا۔ "مُجھے اب کس سے خطرہ ہوگا،تایا سائیں سے۔۔۔۔۔۔۔"اُسکی آنکھوں میں خوف کی لہر دوڑی۔ "نہیں تُمہیں اب کسی سے خطرہ نہیں کیونکہ تُم اب مریام شاہ کی پناہوں میں ہو۔۔۔۔۔۔"مریام شاہ نے اُسے ہاتھ سے پکڑ کر اُٹھایا اور اپنی گود میں بٹھا لیا جس پر وہ جھجھک گئی۔ "میں تُمہیں بہت جلد ورلڈ ٹور پر لے کر جاؤنگا،پر ابھی کُچھ بزنس کی مصروفیات ہیں اس لئے تُمہیں تھوڑا سا ویٹ کرنا ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔"اُس کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیے لبوں سے لگا گیا پرخہ جو پہلے ہی شرم سے آنکھیں جُھکائے بیٹھی تھی اُسکی حرکت پر سمٹ کر رہ گئی۔ "یہ دو دن میرے پاس فراغت کے ہیں اس لیے یہ میں تُمہارے ساتھ گُزارنا چاہتا ہوں مُجھے تُم سے بہت کُچھ کہنا ہے کُچھ تم سے سُننا ہے بہت ساری باتیں کرنی ہے ابھی تو اپنا دل تُمہارے سامنے کھول کر رکھنا ہے کہ مریام شاہ کے لیے پرخہ کتنی خاص اور اہم ہے اُس کے لیے میں کُچھ بھی کر سکتا ہوں کُچھ بھی۔۔۔۔۔۔"وہ پُرشدت لہجے میں بولتا اُس کے گرد اپنے باذؤوں کا حصار قائم کیا تو پرخہ کا دل خُوشی سے لبریز ہو گیا وہ مریام شاہ کے وقت کی تو پیاسی تھی جو ان پندرہ دنوں میں آج تیسری دفعہ اسکے پاس آیا تھا۔ "اور ویسے بھی آج تو ہمیں اپنے کمرے کا بھی غور سے جائزہ لینا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ مُسکراہٹ ہونٹوں میں دبا گیا پرخہ کے لبوں پر شرمیلی سی مُسکان چمکی جسے مریام شاہ نے بہت غور سے دیکھا جس نے نیوی بیلو سُوٹ میں بالوں کو جوڑے میں لیپیٹ کر کیچر لگایا ہوا تھا مریام نے ہاتھ بڑھا کر اُس کا کیچر اُتار دیا اُسکے سلکی بال اُسکے شانوں پر بکھر گئے اور کُچھ اُسکے چاند سے چہرے پر چھا گئے جن کو مریام نے بڑے پیار سے اسکے چہرے سے ہٹایا اور جُھک کر اُسکی تھنڈی پیشانی پر اپنے ہونٹ رکھے پرخہ کا دل تھم گیا جو اب اُس کے کان کی لو کو چُوم گیا تھا۔ "شاہ۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ ان طلسماتی لمحوں میں کھونے سے پہلے بول اُٹھی۔ "آج تو کمرے میں نہیں ہم،اب کیا کہو گی۔۔۔۔۔۔"مریام مُسکرایا "صندل بُوا کچن میں ہیں اور خانسا ماں۔۔۔۔۔۔۔۔"آج نیا حربہ تھا جس پر مریام شاہ نے گہرا سانس بھرا اور اپنی گرفت ڈھیلی کی جس پر وہ جلدی سے کھڑی ہوگئی مریام بھی اُٹھتا ہوا بولا۔ "تُم رُوم میں جاؤ میں تھوڑی دیر تک آتا ہوں۔۔۔۔۔"وہ کہتا ہوا دروازے کی طرف بڑھنے لگا مگر اسکے سوالیہ اور حیران چہرے کی طرف دیکھ کر اسکے قریب آیا۔ "آج کی رات ہمارے ریلیشن کی شُروعات ہو گی اس لیے میں اس رات کو بہت اسپیشل بنانا چاہتا ہوں جس کے لیے مُجھے صرف آدھا گھنٹہ دو اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔" "اور۔۔۔۔۔۔۔"وہ جُھکی نظروں سے ہمہ تن گوش ہوئی۔ "اور خُود کو تیار کرو میرے لیے،اپنا آپ مُجھے سونپنے کے لیے میں آج تُمہیں پورے حق سے اپنا بنانا چاہتا ہوں اپنے پیار کے رنگوں میں رنگنا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔۔"وہ اسے اپنی گرفت میں لیتا گھمبیر لہجے میں سرگوشی کرتا اسکے سر کو چُوم کر چلا گیا پیچھے پرخہ اپنی اتھل پتھل ہوتی دھڑکنوں کو سنھبالنے لگی۔

"_________________________________"

"مُجھے کیوں گھسیٹ لائے ہو یہاں۔۔۔۔۔"اُسامہ اسکے ساتھ مال کے اندر داخل ہوتا ہوا بولا۔ "شاپنگ کرنے کا دل کر رہا تھا تو سوچا تُمہیں ساتھ لے لُوں۔۔۔۔۔۔"مریام شاہ ادھر اُدھر دیکھتے ہوئے بولا۔ "یہ مریام شاہ کب سے اتنا سخی ہو گیا کہ مُجھے شاپنگ کروائے گا،واہ جی واہ ۔۔۔۔۔"وہ خُوش ہوا۔ "ذیادہ خُوش فہم ہونے کی ضرورت نہیں،تُمہاری بہن کے لیے کُچھ سپرائز پلان کرنا ہے اُس میں تُمہاری ہیلپ چاہئیے تُم اور بُرہان ان کاموں میں تو ایکسپرٹ ہو۔۔۔۔۔۔۔"وہ ایک جیولری شاپ میں انٹر ہوا اُسامہ حیرانگی کے شدید جھٹکے کے زیر اثر اُسے دیکھنے لگا جو جیبوں میں ہاتھ پھنسائے جیولری دیکھ رہا تھا۔ "مُجھے ہارٹ اٹیک نہ آ جائے،مریام شاہ اور رومانٹک نو نو۔۔۔۔۔۔۔"وہ نفی میں سر ہلانے لگا۔ "مریام تو قتل،خون خرابہ اور مار کٹائی کا سپرائز پلان کرتا ہے یہ رومانٹک سپرائز حیرت ہے۔۔۔۔۔۔۔"وہ ابھی تک بے یقین تھا جسے بارہ سالوں سے سنجیدہ اور ایک سخت سٹون مین کے رُوپ میں دیکھ رہا تھا اُسکا یہ رُوپ ہضم نہ ہو پا رہا تھا۔ "تُمہاری بہن کو ہی خُوش کرنے کے لیے یہ سب کر رہا ہوں جسے لاہور گُھمانے کے خواب دکھا کر آئے ہو۔۔۔۔۔۔"مریام شاہ نے گھورا جس پر وہ سر کھجاتا مُسکرا دیا۔

"__________________________________"

آغا کب سے گھات لگائے بیٹھا تھا وہ دونوں شاپنگ پلازہ میں گئے تھے اُنکو گئے ایک گھنٹہ ہو چُکا تھا وہ اُنکی واپسی کا انتظار کر رہا تھا تبھی اُسے دونوں ڈھیر سارے شاپنگ بیگز اُٹھائے باہر نکلے آغا اپنا نشانہ سیٹ کرتا چونکنا ہو گیا مریام شاہ کے ساتھ ایک اور لڑکا تھا جو شاپنگ بیگز پیچھلی سیٹ پر رکھ رہا تھا جبکہ مریام شاہ موبائل پر کوئی نمبر ڈائل کر رہا تھا آغا نے اُسکے سینے پر نشانہ سیٹ کیا اور پھر وار کر دیا جو سیدھا جا کر اُس کے سینے میں لگا تھا دوسرے ہی پل دل پر ہاتھ رکھتا وہ زمین پر تھا دوسرا لڑکا جو ڈرائیونگ سیٹ کی طرف بڑھ رہا تھا بھاگتا ہوا اُسکی طرف بڑھا۔ "مشن از سکسیس فُل حاکم،باقی کے پیسے بھی بھیج دو۔۔۔۔۔۔۔۔"آغا نے حاکم کو کال ملائی جو ہنسا تھا اور پھر ہنستا ہی چلا گیا۔

"_______________________________"

   0
0 Comments